پاکستان کی تاریخ میں اگر کسی شخصیت کو سب سے زیادہ عظمت اور اہمیت حاصل ہے تو وہ قائداعظم محمد علی جناح ہیں۔ وہ نہ صرف پاکستان کے بانی ہیں بلکہ اس ملک کی نظریاتی اساس اور سیاسی ڈھانچے کے معمار بھی ہیں۔ ان کی قیادت، اصول پسندی، دیانت داری اور بے مثال جدوجہد نے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ایک آزاد وطن عطا کیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قائداعظم صرف ایک شخصیت نہیں تھے بلکہ پاکستان کے لیے سب سے بڑی سرمایہ کاری تھے، جو ہمیشہ اس قوم کے لیے مشعلِ راہ رہیں گے۔
قائداعظم کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ایسی منزل کی طرف رہنمائی کی جہاں وہ آزادی اور خودمختاری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ برصغیر میں مسلمان ایک بڑی اقلیت تھے اور ہندو اکثریت کے غلبے کے خوف نے انہیں اپنی شناخت کے تحفظ پر مجبور کیا۔ قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کو ایک متحرک جماعت بنایا اور دو قومی نظریے کو ایک عوامی تحریک کی شکل دی۔ یہ ان کی قیادت کا ہی نتیجہ تھا کہ 1940ء کی قراردادِ لاہور صرف سات برسوں میں ایک حقیقت بن گئی اور پاکستان وجود میں آیا۔
قائداعظم کا سب سے بڑا سرمایہ ان کی اصولی سیاست تھی۔ وہ کبھی جھوٹ، دھوکہ یا مفاد پرستی کے قائل نہیں تھے۔ ان کی ساری زندگی قانون، اصول اور انصاف کے دائرے میں گزری۔ ایک مشہور بات ہے کہ ان کے مخالفین بھی ان کی سچائی اور ایمانداری کے معترف تھے۔ گاندھی جی نے بھی کہا تھا کہ “محمد علی جناح ایک ایسے شخص ہیں جنہیں خریدا نہیں جا سکتا۔” یہی خصلت پاکستان کے لیے قیمتی سرمایہ ہے کیونکہ ایک قوم کے لیے رہنما کی دیانت داری سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہے۔
قائداعظم نے ہمیشہ اتحاد، ایمان اور قربانی کو اپنی قوم کا نعرہ بنایا۔ انہوں نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ اگر وہ متحد ہو جائیں اور ایک مقصد کے لیے قربانی دیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں غلام نہیں رکھ سکتی۔ آج بھی یہ نعرہ ہماری قومی زندگی میں روشنی کا چراغ ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک ایسا سرمایہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید قیمتی ہوتا جا رہا ہے۔
قائداعظم کی قیادت کا انداز نہایت مضبوط اور باوقار تھا۔ وہ ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتے اور قوم کے سامنے واضح اور صاف الفاظ میں اپنا مؤقف بیان کرتے۔ وہ وقتی فائدے کے بجائے قوم کے مستقبل کو مدنظر رکھتے۔ ان کی شخصیت کا یہی پہلو پاکستان کے لیے سرمایہ ہے کیونکہ قومیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب ان کی قیادت اصولی، مضبوط اور دور اندیش ہو۔
قائداعظم نوجوانوں کو ملت کا قیمتی سرمایہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ طلبہ اور نوجوان نسل کو کہا کہ وہ تعلیم حاصل کریں، وقت کی قدر کریں اور نظم و ضبط کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیں۔ ان کی تقریریں آج بھی نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک قوم کا اصل سرمایہ اس کے نوجوان ہوتے ہیں، اور قائداعظم نے نوجوانوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنا کر پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔
قائداعظم کی سب سے بڑی سرمایہ کاری پاکستانی قوم کو آزادی کا تحفہ دینا ہے۔ غلامی کی زندگی کتنی ذلت آمیز ہوتی ہے، یہ وہی جان سکتا ہے جو صدیوں تک غلام رہا ہو۔ قائداعظم نے مسلمانوں کو آزادی دلوائی اور انہیں عزت و وقار کے ساتھ جینے کا حق دیا۔ یہ آزادی پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے جو ہمیں قائداعظم کی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا۔
اگرچہ قائداعظم کو ہم سے بچھڑے ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن ان کا پیغام آج بھی زندہ ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست بنے جہاں انصاف، مساوات اور بھائی چارہ ہو۔ اگر ہم ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کریں تو پاکستان ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔ قائداعظم کا کردار اور ان کے اقوال آج بھی ہمارے لیے سب سے بڑا قومی سرمایہ ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت پاکستان کے لیے ایک انمول سرمایہ ہے۔ ان کی قیادت، اصول پسندی، قربانیاں اور دیانت دار سیاست اس ملک کے لیے وہ بنیادیں ہیں جن پر ہم اپنا مستقبل تعمیر کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ان کے افکار کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو پاکستان کو دنیا کی عظیم قوموں میں شامل کرنا مشکل نہیں۔ قائداعظم کی جدوجہد اور خدمات ہمیشہ ہماری قومی تاریخ کا روشن باب رہیں گی اور یہ سرمایہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔
گیارہ ستمبر 1948ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک نہایت غمگین اور المناک دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دن تھا جب برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم رہنما، پاکستان کے بانی اور بابائے قوم، قائداعظم محمد علی جناح اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کی وفات نے ایک ایسے ملک کو یتیم کر دیا جو ابھی اپنے ابتدائی ایام میں مشکلات و مسائل سے دوچار تھا اور جسے ایک مضبوط قیادت کی اشد ضرورت تھی۔
قائداعظم طویل عرصے سے تپ دق کے مرض میں مبتلا تھے۔ انہوں نے اپنی بیماری کو سیاسی جدوجہد کے دوران چھپائے رکھا تاکہ قوم کے حوصلے پست نہ ہوں۔ وہ جانتے تھے کہ اگر عوام کو ان کی بیماری کا علم ہو گیا تو تحریکِ پاکستان پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی انہوں نے اپنی صحت کی خرابی کے باوجود دن رات محنت کی۔ وہ جانتے تھے کہ نیا ملک بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے؛ لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری، حکومتی ڈھانچے کی تعمیر، معیشت کی بحالی اور دشمن کی سازشوں کا مقابلہ سب ان کی قیادت کے منتظر تھے۔
ان کی صحت بتدریج خراب ہوتی گئی۔ 1948ء کے وسط میں ڈاکٹروں نے انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیا مگر قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک فرائض انجام دیے۔ بالآخر ستمبر کے اوائل میں ان کی طبیعت انتہائی بگڑ گئی۔ 11 ستمبر کی شام کو جب وہ زیارت سے کراچی لائے گئے تو ایئرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس تک پہنچنے میں کافی وقت لگا۔ ان کی گاڑی راستے میں خراب ہو گئی اور متبادل گاڑی لانے میں تاخیر ہو گئی۔ اس دوران قائداعظم سخت اذیت میں رہے۔ جب وہ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے تو زندگی کے چند ہی لمحے باقی تھے۔ اسی شب تقریباً 10 بجے وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
قائداعظم کی وفات کی خبر بجلی کی مانند پورے ملک میں پھیل گئی۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ ریڈیو پاکستان نے جب ان کی رحلت کی اطلاع دی تو لوگ غم سے نڈھال ہو گئے۔ گلیوں اور محلوں میں ماتم کی کیفیت چھا گئی۔ عوام کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ شخصیت جس نے ان کے لیے ایک آزاد ملک کی بنیاد رکھی تھی، اب دنیا میں نہیں رہی۔ ان کی موت نے لاکھوں دلوں کو غمگین کر دیا۔
قائداعظم کی وفات صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک بڑا سانحہ تھی۔ دنیا بھر کے اخبارات نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا اور لکھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے ایک عظیم رہنما کھو دیا ہے۔ ہندوستان میں بھی ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔بارہ ستمبر 1948ء کو کراچی میں قائداعظم کا جنازہ ہوا۔ لاکھوں افراد نے اس میں شرکت کی۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جس میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ عوام، سیاسی رہنما، سرکاری افسران، غیر ملکی نمائندے سب اس غم میں شریک تھے۔ ان کا جنازہ شاہراہوں سے گزرا تو لوگ دیوانہ وار ان پر پھول نچھاور کرتے رہے۔ نمازِ جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔ بعدازاں انہیں کراچی میں موجود مزار کے مقام پر سپرد خاک کیا گیا جو آج “مزارِ قائد” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قائداعظم کی وفات نے پاکستان کو قیادت کے بحران میں مبتلا کر دیا۔ ابھی ملک کے قیام کو صرف ایک سال ہوا تھا۔ ملک کو جن مشکلات کا سامنا تھا، ان سے نمٹنے کے لیے قائداعظم جیسی دور اندیش اور مضبوط شخصیت کی ضرورت تھی۔ ان کے بعد لیاقت علی خان وزیرِاعظم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے رہے، لیکن وہ قائداعظم کی جگہ نہیں لے سکے۔ قائد کی وفات کے فوراً بعد پاکستان کے دشمنوں نے یہ خیال کیا کہ یہ نیا ملک زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا، لیکن عوام کے حوصلے اور قربانیوں نے ان کے خوابوں کو حقیقت نہ بننے دیا۔
قائداعظم کی وفات کے باوجود ان کی شخصیت آج بھی زندہ ہے۔ ان کے افکار، اصول اور قربانیاں پاکستان کی بنیاد میں شامل ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو اتحاد، ایمان اور قربانی کا درس دیا۔ انہوں نے بار بار کہا تھا کہ پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنایا جائے گا جہاں انصاف اور مساوات کا نظام ہو گا۔ اگرچہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی، لیکن ان کے خواب آج بھی پاکستانی قوم کے دلوں میں زندہ ہیں۔گیارہ ستمبر کا دن ہر سال ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک عظیم رہنما نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر قوم کو آزادی دلائی۔ یہ دن غم کے ساتھ ساتھ ایک عزم کی تجدید کا دن بھی ہے کہ ہم قائداعظم کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور پاکستان کو وہ ریاست بنائیں گے جس کا خواب انہوں نے دیکھا تھا۔ ان کی وفات اگرچہ قوم کے لیے ایک صدمہ تھی، لیکن ان کا پیغام آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔