پانی میں بہتے خواب تحریر: عمر فاروق کلاسراہمارے دیہی سکول صرف عمارتیں نہیں،یہ ان معصوم خوابوں کا مسکن ہیں جو ہر سال سیلاب کے پانی میں بہہ جاتے ہیں۔دیہات کے وہ گورنمنٹ سکول جو ہر سال سیلاب کی زد میں آتے ہیں، پاکستان کے تعلیمی نظام کی محرومیوں کا ایک المناک منظر پیش کرتے ہیں۔یہ صرف ایک یا دو سکول نہیں بلکہ پورے کے پورے علاقے ایسے ہیں جہاں بارش اور سیلاب بچوں کی تعلیم کو روند کر گزر جاتے ہیں۔ان سکولوں میں پڑھنے والے زیادہ تر بچے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے پاس نہ وسائل ہیں، نہ جدید سہولتیں،کبھی بستہ نہیں، کبھی کاپی نہیں، لیکن خواب بہت بڑے ہیں ۔ان بچوں کو دوہری جنگ لڑنا پڑتی ہے،ایک طرف غربت اور سہولتوں کی کمی، اور دوسری طرف مہنگے نجی سکولوں کے ان ہم عمر بچوں سے مقابلہ،جنہیں زندگی کی ہر آسائش میسر ہے۔شہروں میں بڑے بڑے بینرز پر ان سکولوں کے نتائج اور کامیاب طلبہ کی تصاویر چمکتی ہیں، لیکن دیہات کے ان محنتی بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ہر سال ان کا سکول پانی میں ڈوب جاتا ہے اور ان کے خواب مٹی اور پانی میں گم ہو جاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور معاشرہ ان سکولوں پر خصوصی توجہ دے۔ایسے ادارے جہاں ہر سال سیلاب آتا ہے،ان کے لیے پائیدار عمارتیں،بہتر سہولتیں اور حفاظتی اقدامات ناگزیر ہیں۔ ورنہ ایک دیہاتی بچے کی برسوں کی محنت اور قربانی یوں ہی سیلاب کے بہاؤ میں گم ہوتی رہے گی۔یہ ننھے چراغ، جو پکے خوابوں اور عزم لے کر سکول آتے ہیں، ہمارے مستقبل کی روشنی ہیں۔
پانی میں بہتے خواب تحریر: عمر فاروق کلاسرا
۔