پاکستان کی سیاسی اور فوجی تاریخ میں بارہ ستمبر 1977 کا دن ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن پاکستان کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے صدرِ پاکستان کا منصب بھی سنبھال لیا، جس کے بعد وہ ملک کے سب سے طاقتور حکمران بن گئے۔ یہ دن نہ صرف ضیاء الحق کے اقتدار کی طوالت کا آغاز تھا بلکہ پاکستان کی سیاست، آئین اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی ایک نئی سمت کا اعلان بھی تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 کے عام انتخابات کروائے، لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ ملک میں احتجاج اور ہنگامے شروع ہوئے۔ ایسے میں فوج نے حالات کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کرتے ہوئے بھٹو حکومت کو معزول کر دیا۔انھوں نے قوم سے خطاب میں وعدہ کیا کہ نوے دن کے اندر ملک میں شفاف انتخابات کروائے جائیں گے اور اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔
نوے دن کا وعدہ پورا نہ ہو سکا اور انتخابات کے بجائے ضیاء الحق نے اپنا کنٹرول مزید بڑھا دیا۔ بالآخر بارہ ستمبر 1977 کو انھوں نے صدرِ پاکستان کا منصب بھی سنبھال لیا۔ اس وقت تک پاکستان کے صدر فضل الٰہی چوہدری تھے، مگر وہ عملی طور پر اختیارات سے محروم ہو گئے تھے۔ جنرل ضیاء نے اپنے ہاتھ میں ریاست کا مکمل نظم و نسق لے کر اقتدار کو مضبوط کر لیا۔ اس دن سے وہ محض فوجی سربراہ نہیں رہے بلکہ پاکستان کے آئینی صدر بھی بن گئے۔
جنرل ضیاء الحق کے صدر بننے کے بعد فوجی اقتدار کو آئینی تحفظ مل گیا۔ اب وہ نہ صرف بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر حکم جاری کر سکتے تھے بلکہ صدر کی حیثیت سے ریاست کی علامتی طاقت بھی ان کے پاس آ گئی۔ اس دوہری حیثیت نے انھیں ایسا اقتدار بخشا جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی کسی فوجی حکمران کو حاصل نہیں ہوا تھا
بارہ ستمبر 1977 کے بعد ضیاء الحق نے اپنے دورِ حکومت کو طویل بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے جن میں انھوں نے پاکستان میں حدود آرڈیننس، زکوٰۃ و عشر کے قوانین اور شرعی عدالتوں کے نظام کو متعارف کروایا۔ اس عمل کو ’’اسلامائزیشن‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کو محدود کر دیا گیا۔ بڑے بڑے رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور اظہارِ رائے پر قدغنیں لگائی گئیں۔
ضیاء الحق نے آئین میں ترامیم کیں، خاص طور پر آٹھویں ترمیم، جس کے تحت صدر کو اسمبلی توڑنے اور وزیرِاعظم کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہوا
ضیاء الحق کے دور کا سب سے بڑا اور متنازع فیصلہ سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں سزائے موت دینا تھا، جس پر آج تک بحث جاری ہے۔ 1979 میں سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان امریکی بلاک کا اہم اتحادی بن گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے افغان مجاہدین کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد ملی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اسلحہ، انتہا پسندی اور مہاجرین کے مسائل بھی بڑھ گئے۔
بارہ ستمبر 1977 کو صدر بننے کے بعد ضیاء الحق کا اقتدار گیارہ سال تک قائم رہا۔ یہ دن پاکستان کی تاریخ میں اس لیے اہم ہے
فوجی سربراہ نے صدر بن کر مکمل کنٹرول حاصل کیا۔جس سےپاکستان کی آئینی اور جمہوری سیاست پر طویل عرصہ اثر پڑا۔
اسی دن سے وہ ’’صدر ضیاء الحق‘‘ کہلانے لگے اور ان کا دور رسمی طور پر ایک فوجی آمریت سے بڑھ کر ریاستی سربراہی میں ڈھل گیا۔
جنرل ضیاء الحق کا دور آج بھی بحث کا موضوع ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کو اسلامی تشخص دیا، معیشت کو مستحکم کیا اور دفاع کو مضبوط بنایا۔ دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے اقدامات نے جمہوری نظام کو نقصان پہنچایا، شدت پسندی کو پروان چڑھایا اور سیاست کو کئی دہائیوں تک غیر مستحکم کر دیا،اگرچہ ناقدین کی آراء کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو
جنرل ضیاء الحق کا دور پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین فوجی اقتدار مانا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کے حامی اسے اسلامائزیشن اور دفاعی مضبوطی کا زمانہ قرار دیتے ہیں، لیکن ناقدین کے مطابق ان کے اقدامات نے پاکستان کی سیاست، سماج اور معیشت پر منفی اثرات ڈالے۔سب سے پہلے، ان کے دور کو جمہوریت کےلیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جاتا ہے۔ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 90 دن میں انتخابات کروانے کا وعدہ کیا مگر گیارہ سال تک حکومت پر قابض رہے۔سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگائی گئیں، رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور عوام کو اظہارِ رائے کی آزادی سے محروم رکھا گیا۔اس نے پاکستان میں جمہوری روایت کو شدید نقصان پہنچایا۔
دوسرا پہلو ان کی اسلامائزیشن کی پالیسی ہے۔اگرچہ مقصد اسلامی قوانین کا نفاذ بتایا گیا،لیکن ان کے نفاذ کے طریقہ کار پر سخت تنقید کی جاتی ہے۔حدود آرڈیننس اور دیگر قوانین پر آج بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان سے معاشرتی انصاف کے بجائے انتشار اور ناانصافی کو فروغ ملا۔
تیسرا اور سب سے اہم تنقیدی نکتہ افغانستان کی جنگ میں شمولیت ہے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے سے پاکستان کو وقتی طور پر مالی امداد تو ملی،لیکن اس کے نتیجے میں ملک میں کلاشنکوف اور منشیات کلچر عام ہوا۔ساتھ ہی فرقہ واریت اور شدت پسندی نے جڑیں پکڑیں،جس کے اثرات آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔نہ صرف ضیاء الحق کے فیصلوں نے معاشرتی ہم آہنگی کو کمزور کیا اور سیاست میں فوجی مداخلت کو مزید جواز بخشا۔ ان کا دور اس لحاظ سے تاریخ کا ایک متنازع باب ہے کہ جس نے پاکستان کو کئی دہائیوں تک غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا رکھا۔
سترہ اگست 1988 کو بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثے میں جنرل ضیاء الحق جاں بحق ہو گئے جن کے ساتھ امریکی سفیر اور جرنیل بھی شامل تھے۔ ان کی موت کے ساتھ ہی ان کا گیارہ سالہ دورِ حکومت ختم ہوا، مگر ان کی پالیسیوں کے اثرات آج بھی پاکستان کی سیاست اور سماج میں دکھائی دیتے ہیں۔
بارہ ستمبر پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جب جنرل ضیاء الحق نے صدارت کا منصب سنبھال کر اقتدار کے نئے دور کا آغاز کیا۔ یہ دن اس لحاظ سے سنگِ میل ہے کہ اس کے بعد پاکستان کا سیاسی، آئینی اور سماجی دھارا طویل عرصے تک فوجی حکمرانی کے زیرِ اثر رہا۔ چاہے کوئی ان کے اقدامات کو مثبت سمجھے یا منفی، یہ حقیقت ہے کہ بارہ ستمبر کے بعد ضیاء الحق کی شخصیت اور ان کی پالیسیوں نے پاکستان کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے۔